Sunday 8 September 2013

تعارف


بسم الله الرحمن الرحیم
 
 

پس منظر


جوں جوں سائنس اور ٹیکنالوجی نے  ترقی  کی انسان کے  لئے  آسانیاں پیدا ہوتی گئیں ۔ جس سمت بھی نظر دوڑائیں ہر طرف مشینیں ہی مشینیں نظر آتی ہیں ۔ موجودہ دور میں ضروریات زندگی کی شاید ہی کوئی ایسی چیز ہو جس کی تیاری سے لیکر ہم تک پہنچنے میں مشین کا استعمال نہ ہو۔
مشینوں کی اس  کی بہتات نے لوگوں کے طرز زندگی کو بدل کر رکھ دیا  ہے ۔ مگر اب دور بدل رہا ہےاوروقت مزید ایک قدم آگے کی جانب  بڑھاتے ہوے اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں اپنا سفرجاری رکھے ہوئے ہے ۔ مشینوں کے اس استعمال کے ذریعے ہماری سوچوں کو آہستہ آہستہ جس جانب لے جایا جا رہا ہے وہ راستہ تاریکی  کے ایسے بلیک ہول میں جا پہنچتا ہے جہاں سے آج تک کسی بھی قوم کی واپسی نہیں ہوئی، مگر اب یہ دوربھی بدل چکا ہے اور اب دور ہے کمپیوٹر اور ٹیلی ویژن کا ....میڈیا کااور الیکٹرانک میڈیا کا.
گزشتہ چھبیس سالوں میں جس قدر ترقی اور  پذیرائی الیکٹرانک میڈیا (چاہے وہ کمرشل میڈیا ہو یا سوشل ) کو حاصل ہوئی ہے اسکی کہیں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ میڈیا کا ہماری زندگی میں کردار اس حد تک سرایت کر گیا ہے کہ ہم کپڑوں سے لیکر کھانا کھانے تک، تفریح سے لیکر تعلیم حاصل کرنے حتٰی کہ شادی کی تقریب سے لے کرمیت کی تدفین تک ہر چیز میں اس سے مدد  حاصل کرتے ہیں۔ کچھ بھی کرنا ہو بس دماغ کا شٹر ڈاؤن کر کے  میڈیا کی آنکھ کھول لیں ہر چیز کا منفرد اور بہترین طریقہ مل جائے گا ۔ اس قدر ترقی کے باوجود آج بھی انسان محتاج ہے اور سائنس بے بس ، کیونکہ ہمارے (مسلمانوں کے) اجداد نے جس سائنس کی بنیاد رکھی تھی وہ آج اپنے زمانہ عروج پر پہنچ کر اگلی منزل کی جانب رواں دواں ہونے کے لئے پھر سے کسی ابن الہیثم کے انتظار میں ہے ۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کے ہم نے سفر کو ہی منزل سمجھ لیا ہے اوراسی کے لئے جدوجہد میں لگے ہوے ہیں ۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تبدیلی کو ترقی  کے نام سے منسوب کر دیا ہے ۔ آج دنیا کے معیار تبدیل ہو چکے ہیں، ہم  ٹچ موبائل کو جدت ،مصنوعی دل کو سائنس اور بہترین ڈگری کو تعلیم سمجھ بیٹھے ہیں ۔ جبکہ اخلاقیات  کی مد میں جسم کی نمائش  کو ماڈرن ازم ،چھچھورپن کو تفریح اور تذلیل کو تنقید سے تبدیل کر دیا  گیا ہے. ہمیں اس حال تک پہنچانے میں میڈیا کا کردار سب سے نمایاں ہے ۔
ہماری زندگیوں سے براہ راست جڑے ہونے کی وجہ سے میڈیا پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ایسے رجحانات کو متعارف کرواے جن کے نتائج زیادہ فائدہ مند اور دور رس ہوں ۔ موجودہ میڈیا ٹیکنالوجی کے اس دور میں تمام تر جدید آلات سے استفادہ کرتے ہوے معاشرے کی اصلاح اور پختگی کی سطح پر لانے کے لئے کیے جانے والے  اقدامات ایسے ہی ہیں جیسے ایک سنگترے سے ایک قطرہ رس نکالا جائے اور باقی کا سنگترا ضائع کر دیا جائے ۔
ایک عام شہری یا سول سوسایٹی کا  نمائندہ ہونے کی وجہ سے ہم پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور جو لوگ کسی نہ کسی ضمن میں  اپنی یہ ذمہ داریاں  سر انجام دے رہے ہیں وہ  اور ان کا  کام قابل تحسین ہے ۔

تعارف


پاکستان TV اپنی مدد آپ کے تحت شروع کیا جانے والا پاکستان کا پہلا اور دنیا کا سب سے بڑا انٹرنیٹ بیسڈ سوشل ٹیلی ویژن پراجیکٹ ہے۔
جس طرح آپ کیبل یا سیٹلائٹ کے ذریعہ سے مختلف ٹی وی چینلز کی نشریات دیکھتے ہیں "پاکستان TV " بھی اسی طرز پر ٹیلی ویژن کی مکمل نشریات کو بذریعہ انٹرنیٹ دکھانے کا منصوبہ ہے۔
اگر آپ اپنے مُعاون سرچنگ ٹولز سے "سوشل ٹیلی ویژن" سے متعلق تلاش کریں تو پتہ چلے گا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک بھی ابھی تک "سوشل ٹیلی ویژن "کی باقاعدہ نشریات پیش کرنے سے معذور ہیں. اور اس ضمن میں اگر کہیں کوئی کام ہو بھی رہا ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ ٹیوب یا پرسنل ونڈو سٹریمنگ کی صورت میں موجود ہے. 
جاپان سائنس اور ٹیکنولوجی کے حوالے سے دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک ہے .  2011ء میں جاپان میں منعقد کی گئی DLD (ڈیجیٹل لائف ڈیزائن) کی ایک کانفرس میں یو ٹیوب اور Yahooسمیت سوشل میڈیا کے تقریباً سبھی سروس پروائیڈر کمپنیز کے مالکان اور نمائندوں کی موجودگی میں دنیا کی صف اول کی پروڈکشن کمپنی"Endemol" کے اس وقت کے CEO جن کا نام "Ynon Kreiz" تھا نے اپنے خطاب میں کہا کہ "ابھی تک ہمارے پاس کسی باقاعدہ سوشل ٹیلی ویژن کا کوئی تصورموجود نہیں اور اگر کوئی تصور موجود بھی ہے تو وہ تخیلاتی یا تجرباتی مراحل سے گزر رہا ہے". انہوں نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ "لوگ کہتے ہیں کہ یہ (سوشل ٹیلی ویژن) ایک بڑا ذریعہ آمدن ہو سکتا ہے جبکہ میں کہتا ہوں یہ ایک بہت بڑا ذریعہ آمدن ہو گا ".
"پاکستان TV" کی لاگت کا تخمینہ تقریباً پانچ کروڑ روپے ہے جو اشتہارات اور سپانسرز کی مد میں حاصل ہونے والی سالانہ آمدن کا تقریباً نصف  بنتا ہے۔ اسکے علاوہ "پاکستان TV" ملک میں رائج مختلف زبانوں، تہذیبوں، ثقافتوں اور مذہبی عقائد کی حفاظت و بقاء کیلئے موثر کوششوں کے ساتھ ساتھ 3000  افراد کیلئے براہ راست باعزت روزگار فراہم گا جبکہ یہ پچاس ہزار سے زائد باصلاحیت افراد کی صلاحیتوں کو سامنے لانے کیلئے ایک بہترین پلیٹ فارم مہیا کرے گا . اس کے علاوہ یہ مختلف شعبہ ہاےُ زندگی کے تجربہ کار اور سینئر افراد کے تجربے سے استفادہ کرنے اور ملک و ملت کی نظریاتی بنیادوں کو مضبوط اور مستحکم کرنے کے لئے بھی مدد گارثابت ہوگا ۔ "پاکستان TV" پاکستان کی باصلاحیت نوجوان نسل کو مثبت سمت میں متحرک کرنے اور پاکستانی مصنوعات کو بین الاقوامی منڈیوں میں متعارف کروانے کیلئے منفرد انتظامات کر رہا ہے . (تفصیلات  کیلئے بروشر  ملاحظہ  کریں)

"پاکستان TV" پاکستانی قوم کیلئے ایک اعزاز ہے اور وقت کی ضرورت بھی، دنیا بھر میں ذرائع ابلاغ کے شعبے میں بے پناہ ترقی کے باوجود کمرشل میڈیا (الیکٹرانک و پرنٹ) میں بہت سی خامیاں اور قباحتیں باقی ہیں، اس لئے یہ دورِ جدید کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے ناکافی ہیں۔ خاص طور سے کمرشل میڈیا کے 'بڑوں' کی روایتی نشریات جس میں جدت اور آزادی اظہار کے نام پرغیر ملکی کلچر اور فحاشی و عریانی  کو فروغ دیا جانا ایک انتہائی قابلِ مذمت اقدام ہے ، جبکہ روایتی سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے جہاں فائدہ حاصل ہو رہا ہے تو وہیں دوسری جانب معاشرہ اس سے ذہنی انتشار کا شکار ہو رہا ہے ۔  
چونکہ ابھی تک وطنِ عزیز میں باقاعدہ سوشل ٹیلی ویژن کا محض تصور ہی موجود ہے، ایسے میں سوشل ٹیلی ویژن کیلئے کسی متوازن قانون کی عدم دستیابی کے باعث "پاکستان TV" نے میڈیا کی دنیا میں اس خلاء کو پُر کرنے کیلئے چند قوائد و ضوابط وضع کیے ہیں تاکہ اپنے لئے معتدل حدود کا تعین کیا جاسکے۔ اس ضمن میں "پاکستان TV" نے اپنے مرکزی خیال "نوجوان پاکستان" کو مدِنظر رکھتے ہویے ایک مشن اسٹیٹمنٹ مرتب کی ہے.

مشن سٹیٹمنٹ
" کمرشل اِزم کی دنیا سے ہٹ کر حقیقی زندگی کی عکاسی کرتے ہوئے معاشرے کے ہر فرد کو اسکی ذمہ داریوں کا احساس دلانا "
اس مشن کو عملی جامہ پہنانے کے لئے "پاکستان TV" نے ایک منفرد انتظامی ڈھانچہ تشکیل دیا ہے اور ساتھ ہی ماڈل سوشل ٹیلی ویژن پالیسی اور  آئی میڈیا پالیسی ترتیب دی ہے
(نوٹ: احتیاط کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے "پاکستان TV " اپنے پراجیکٹ کو مکمل کرنے کیلئےانتظامی امور یا پالیسی میں  کسی بھی  تبدیلی کا اختیار رکھتا ہے ) 


Thursday 22 August 2013


فرشتوں کی بستی سے  

"جہاں پناہ تسی گریٹ او معذرت قبول کرو"