Thursday 22 August 2013


فرشتوں کی بستی سے  

"جہاں پناہ تسی گریٹ او معذرت قبول کرو"

بچپن میں ایک کہانی ہمارے بزرگ سنایا کرتے تھے کہ ایک ملک کے بادشاہ کو اُس کے وزراء نے کہا کے اُسکی قوم بد دیانت اور بے ایمان ہو گئی ہے۔ اُس کا تجربہ کرنے کے لئے شہر کے بیچوں بیچ ایک بڑا سا تالاب کھدوایا گیا اور سارے شہر میں منادی کروا دی گئی کہ رات کی تاریکی میں شہر کا ہر فرد اُس میں ایک بالٹی دودھ کی اس طرح ڈالے گا کے کسی دوسرے کو اُسکے اس عمل کی خبر نہ ہو۔
بادشاہ کا حکم تھا کون ٹال سکتا تھا لہذا بد دیانت قوم کے ہر فرد نے سوچا کے چونکہ معاملہ رات کی تاریکی اور راز داری کا ہے سارے لوگ دودھ ڈالیں گے تو اُسکی ایک بالٹی پانی سے کیا فرق پڑے گا یہی سوچ کر ہر شخص نے بجاے دودھ کے پانی کی بالٹی بھری اور بادشاہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنا فرض ادا کر دیا۔
صبح ہوتے ہی جب بادشاہ اپنے وزراء کے ساتھ تالاب کے کنارے پر پہنچا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کے دودھ کے لئے بنواے گئے تالاب میں صرف اور صرف پانی جمع تھا۔

آپ مجھ سے زیادہ ذہین بھی ہیں اور باریک بین اس کہانی کی تفصیلات آپکو مجھ سے زیادہ ہوں گی میرا مدعا صرف یہ ہے کے وہ قوم بددیانت اور بے ایمان تھی لیکن ہم کیا ہیں جو دن دیہاڑے کھلے آسمان کی روشنی میں سب کے سامنے دودھ میں پانی ملا رہے ہیں اور اُس پر ڈھٹائی کا یہ عالم کے اُس پانی کو دودھ ثابت کرنے پر تلے پڑے ہیں ۔عقل و دانش کی دکانوں پر بیٹھے کم و بیش ہر بیوپاری کو یہ گمان ہو چلا ہے کے دودھ صرف اُسکی میراث ہے یا شاید اُسی کے نلکے سے نکلنے والی چیز کا نام دودھ ہے ایسے میں حقیقت کہیں گم ہو کر رہ گئی ہے اوردشمن موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پیش قدمی کرکے ہماری آنگن کو پھلانگ کر ہمارے کمروں کی دہلیز تک آ پہنچا ہے۔

میرے کالم نگاری کے پہلے سلسلے فرشتوں کی بستی کی پہلی تحریر اُن بیوقوف چلاق دوستوں اوراُن دشمنوں کے نام ہے جو ہمیں سوتا سمجھ کر ہماری دہلیز تک آ پہنچے ہیں تاکہ ہم اُنھیں یہ بتا سکیں کہ ہمارے نبی آخر و زماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آخری خطبہ حجتہ الوداع سے لیکر آج تک ہم جاگ رہے ہیں اور انتظار کر رہے ہیں اپنے پروردگار کے وعدے کی تکمیل کا جو لوح قلم پر محفوظ ہے۔


 میرا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں میرے کالم نگاری کے سلسلے فرشتوں کی بستی میں قارئین کو کچھ تلخ حقائق کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔لیکن میں مجبور ہوں لہذا جذبات کی رو میں بہہ کر کسی کی دل آزاری کا باعث بنوں تو بندہ معافی کا خواستگار ہے اور جو لوگ بحث براے بحث کے قانون پر عمل کرتے ہیں تو اُن کے لئے فقط اتنا ہی کہوں گا کہ


"جہاں پناہ تسی گریٹ او معذرت قبول کرو"
از قلم
عبد الله یوسف زئی

1 comment: